خواتین کی ’ویاگرا ‘ کی کہانی ہے کیا؟
باربرا گاتوسو 40 سال کی عمر کی طرف
بڑھ رہی تھیں اور پہلی بار ان کو شوہر کے ساتھ جنسی تعلقات کے حوالے سے
رویے میں تبدیلی محسوس ہوئی۔
باربرا کہتی ہیں: ’میں نے کبھی گریگ سے اس بارے میں بات نہیں کی۔ میں نے محسوس کیا کہ میں سیکس کے بارے میں کم پرواہ کرنے لگی ہوں۔‘
اب
66 سال کی عمر میں باربرا بتاتی ہیں: ’میں شوہر کے ساتھ جنسی تعلق قائم
کرنے سے کترانے لگی۔ میں انکار نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ ایسا کرنے سے
شوہر کو ٹھیس پہنچتی۔‘
وہ جلدی سونے چلی جاتی تھیں اور شوہر کے اٹھنے
سے پہلے اٹھ جاتی تھیں۔ ’کچھ وقت کے بعد میں سوچنے لگی کہ یہ کیا ہو رہا
ہے؟ میں اپنے شوہر سے محبت کرتی ہوں۔ ہماری کامیاب شادی ہے۔ خوبصورت بچے
ہیں۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘
دراصل مسئلہ سیکس کی خواہش کی کمی تھا۔
طویل رشتے میں رہنے والے زیادہ تر لوگ جانتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ چاہت اور کشش کم ہو جاتی ہے۔
لیکن
باربرا کے معاملے میں تو انھیں جنسی تعلقات میں کوئی دلچسپی ہی نہیں رہ
گئی تھی۔ یہ صرف ان کے شوہر کے ساتھ والا مسئلہ نہیں تھا، وہ کسی بھی مرد
کی طرف متوجہ نہیں ہوتی تھیں۔
اہم پیش رفت
کچھ
ماہرنفسیات کے مطابق جنسی خواہشات میں اتار چڑھاؤ عام بات ہے۔ خاص طور پر
جب خواتین کی عمر بڑھنے لگتی ہے تو ان کی جنسی تعلقات کی خواہش کم ہو جاتی
ہے۔ اگرچہ کچھ ماہر نفسیات اس کی وجہ طبی نقص اور دماغ میں کیمیکلز کا عدم توازن سمجھتے ہیں۔ ایسی
خواتین کے لیے بازار میں نئی دوا آنے والی ہے۔ امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ
ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) تین اور چار جون کو اس موضوع بات چیت کے لیے ایک
مشاورتی کمیٹی کی میٹنگ کر رہی ہے۔ یہ کمیٹی طے کرے گی کہ کیا ایسی خواتین کو فلبانسیرن کے استعمال کی اجازت دینی چاہیے یا نہیں فلبانسیرن ہی وہ دوا ہے جسے ’فیمیل ویاگرا‘ کا نام دیا گیا ہے۔
خواہش کم کیوں ہوتی ہے؟
سوال اٹھتا ہے کہ سیکس کی خواہش کم کیوں ہوتی ہے اور فلبانسیرن اس میں کس طرح سے مدد کرے گی؟
صرف
خواتین میں ہی بڑھتی عمر کے ساتھ جنسی تعلقات سے متعلق مشکلات پیدا نہیں
ہوتیں۔ مردوں کے درمیان ویاگرا کی مقبولیت بتاتی ہے کہ مرد بھی اس مسئلے کے
وجہ سے خاصے فکر مند ہوتے ہیں۔
مرد اور خواتین میں مسئلے کی نوعیت میں فرق ہو سکتا ہے۔
سینڈياگو
میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہر نفسیات سٹیون سٹاہل کہتے ہیں:
’جنسی تعلقات کے حوالے سے خواتین میں تین طرح کے مسائل ہوتے ہیں۔ خواہش،
خواہش اور خواہش۔‘
خواہش میں کمی کی حقیقی وجہ سائنس دانوں کے لیے راز ہی ہے۔
ایک نظریہ یہ ہے کہ جنسی خواہش
کی کمی کی بیماری ہائپوایكٹو سیكسوئل ڈیزائر ڈس آرڈر (ایچ ایس ڈی ڈی) کی
وجہ دماغ کے اگلے حصے کو سوئچ آف نہ کر پانا ہے۔ یہ حصہ روزمرہ کے کاموں کو
یاد رکھتا ہے، جیسا کہ کسی کو سالگرہ کا کارڈ بھیجنا ہے، گھر میں مرمت
کرانی ہے، دفتر کا کام نمٹانا ہے۔
جب دماغ کے یہ سرکٹ گڑبڑ کرتے ہیں تو تسکین کے جذبات میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
جب
مردوں میں جنسی خواہش سے وابستہ مسائل کے علاج میں ویاگرا کا استعمال
کامیاب رہا تو عورتوں کے لیے بھی ایسی ہی دوا بنانے کی دوڑ لگ گئی۔
لیکن یہ دوا عورت کے جنسی اعضا کا نہیں دماغ کا علاج کرے گی۔
سائیڈ افیكٹ ہی بنا علاج
فلبانسیرن
اس دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ پہلے اسے مانع افسردگی (اینٹی ڈیپریسنٹ) دوا کے
طور پر تیار کیا گیا لیکن اس سے لوگوں کے رویے پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
لیکن
اس کے كلینكل ٹرائل میں شامل عورتوں میں ایک دلچسپ سائیڈ ایفیکٹ یا ذیلی
اثر دیکھا گیا کہ عورتوں کی جنسی تعلقات میں دلچسپی بڑھنے لگی۔
یہ دوا دماغ میں ڈوپامائن، نوراڈرینالائن اور سیروٹنین کے متوازن کرنے کا کام کرتی ہے۔
سٹیون
سٹال کہتے ہیں: ’یہ عام توازن قائم کر دیتی ہے یا پھر جو کمی ہوتی ہے، اسے
پورا کرتی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ خواتین کے دماغ کے اگلے حصے کے سرکٹ کو جنسی
تعلقات کے وقت شل کر دیتی ہو جو عام حالات میں ان کی جنسی خواہش گھٹاتا
ہے۔‘
اسے جنسی تعلقات سے متعلق مسائل کا سامنا کرنے والی خواتین میں سیکس کی خواہش کو بڑھانے کے لیے پیش کیا گیا۔
اثرات کا مطالعہ
اس ٹرائل کے دوران خواتین نے دوا کے استعمال سے جنسی تعلقات میں اطمینان بڑھنے کا اظہار کیا تھا۔
لیکن سیکس کی خواہش بڑھنے کی بات ثابت نہیں ہو پائی اور ایف ڈی اے نے اس دوا کو سنہ 2010 میں مسترد کر دیا۔
تاہم بعد کے مطالعہ جات سے ظاہر ہوا کہ اس سے جنسی تعلقات کی خواہش بڑھتی ہے۔
ایچ
ایس ڈی ڈی ادویات کی کیمپین کرنے والی کمپنی ايون دی اسکور کی سربراہ سوزن
سكینلن کہتی ہیں: ’مسئلہ یہ ہے کہ آپ اس صورت حال میں بہتری کیسے ماپتے
ہیں؟‘
سوزن کہتی ہیں: ’اوسط امریکی خاتون ایک ماہ میں تین بار جنسی
تعلقات قائم کرتی ہے، اگر دوا کے استعمال کرنے والی خاتون نے مہینے میں تین
بار سیکس نہیں کیا تو کیا دوا ناکام سمجھی جائے گی۔‘
دراصل ایچ ایس
ڈی ڈی میں مبتلا خواتین دوا نہ لینے کی صورت میں مہینے میں ڈیڑھ بار سیکس
کرتی ہے، لیکن فلبانسرین کے بعد 28 دن کے عرصے میں وہ اوسطاً ڈھائی بار
سیکس کرتی ہیں۔
’سیکس کی خواہش میں اضافہ‘
ٹرائل
کے دوران کچھ خواتین نے صورت حال میں بہتری کے بارے میں ہے۔گاتوسو نے
فلبانسیرن کے ٹرائل میں سنہ 2011 میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
ان سے پہلے پلیسيبو (فرضی دوا) دی گئی لیکن انھیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
جب
انھیں فلبانسیرن دی گئی تو انھوں نے کہا: ’کچھ ہی ہفتے میں مکمل طور پر
بدل گئی۔ میں نے رات میں اٹھ جاتی اور شوہر سے محبت کرنے لگتی۔ چاہت اور
باہمی تعلقات کی گرماہٹ کو میں نے 100 فیصد محسوس کیا۔‘
اس دوا کے
استعمال کے کچھ ضمنی اثرات بھی سامنے آئے ہیں، جیسے غنودگی، چکر آنا اور جی
متلانا وغیرہ۔ گاتوسو اسے زیادہ خطرناک نہیں سمجھتیں۔
سوزن کہتی
ہیں: ’مردوں کی دوا وياگرا اور ایسی ہی دوسری 26 ادویات کے استعمال سے ہونے
والے ضمنی اثرات میں ہارٹ اٹیک، اندھاپن، اچانک موت اور پينائل رپچر (جنسی
عضو کی رگ پھٹ جانا) شامل ہیں۔‘
کچھ لوگوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ
فلبانسیرن کے بازار میں آنے سے خواتین جن مسائل کو ریلیشن شپ کائونسلنگ سے
سلجھا سکتی ہیں، ان کے لئے بھی دوا کا استعمال ہونے لگے گا۔
برطانیہ
کی یونیورسٹی آف ساؤتھمپٹن کی ماہرنفسیات سنتھيا گراہم کہتی ہیں: ’چاہت کے
لیے باہمی تعلق کا کردار اہم ہوتا ہے۔ حوالہ اور حیثیت بھی اہم ہے۔ موڈ اور
پرائیویسی بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں.‘
حالانکہ اس کے بعد بھی سنتھيا گریم مانتی ہیں کہ کچھ حالات میں دوا کا استعمال فائدہ مند ہو گا۔
لیکن
وہ اس کے ضمنی اثرات پر اور مطالعہ کی بات کہتی ہیں۔ ویسے کچھ لوگ یہ بھی
مانتے ہیں کہ فلبانسیرن کے آنے سے دوسری زیادہ موثر ادویات کو تیار کرنے کا
عمل رک جائے گا۔
دوا کی ضرورت
اگرچہ کوئی بھی اسے شرطیہ علاج کے طور پر نہیں دیکھ رہا ہے سٹیون
سٹاہل کہتے ہیں: ’اگر آپ کی جنسی تعلقات میں دلچسپي کم ہو گئی ہو تو یہ
سوال پوچھیے کہ کیا صرف شوہر کے ساتھ ہی ایسا محسوس ہوتا ہے؟ کیا آپ کو
دوسرے مردوں میں دلچسپی ہے، یا پھر جنسی تعلقات میں بالکل ہی دلچسپی نہیں
ہے۔یہ طے ہے کہ دوا کی گولی بے جوڑ شادی میں کام نہیں آ سکتی۔ گاتوسو
کا کہنا ہے کہ تعلقات کے معاملات کونسلنگ سے سلجھائے جا سکتے ہیں لیکن وہ
فی میل ویاگرا کو حتمی امید کے طور پر بھی دیکھ رہی ہیں۔ گاتوسو کہتی
ہیں: ’جب میں نے اس دوا کو واپس لیے جانے کا امکان کی بات سنی تو میں صرف
اپنے بارے میں سوچ کر ہی مایوس نہیں ہوئی تھی، میرے جیسی لاکھوں خواتین ہیں
جنھیں اس صورت حال میں کہیں سے مدد نہیں ملتی۔ انھیں اس دوا کی ضرورت ہے۔‘
Article Source :bbc urdu
Post a Comment